علاج ِمرض ِکہن ۔۔ گلگت بلتستان والوں کے نام

علاج ِمرض ِکہن
ہم گلگت بلتستان کے باسیوں نے ہمیشہ سے خود فراموشی کے نتیجے میں تنزلی اور پستی دیکھی ہے۔ یہ خود فراموشی ایک بیماری کا نام ہے جس میں مریض خود کو بھول جا تاہے۔ پرہیز، دوائی، خوراک اور جسمانی مشق سمیت کسی چیز کا کوئی خیا ل نہیں رکھتا، حتیٰ کہ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور اسے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اور جب یہ بیماری کسی قوم کو لاحق ہوتی ہے تو وہ ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ ‘ بن جاتی ہے، خود اپنے مسائل کو بھول کردوسروں کے لئے کام کرتی ہے، کسی اور کے لئے استعمال ہوتی ہے، اسے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اسکی خودفراموشی نے اسے اندر سے کھوکھلا کردیا ہے اور یہ مرحلہ قوموں کی ناکامی کا تقریباً  ا   ٓخری مرحلہ ہوتاہے ۔بقول حکیم الامت:
            وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا۔۔۔۔!
            کاروان کے دل سےاحساس زیاں جاتا رہا
خدا کسی بھی قوم کی خود فراموشی کی بیماری سے دوچار نہ کرے کیونکہ اس بیماری کے جرثومے تعلیم، معاش، صحت،  سماج ، خاندان اور دین  کے بنیادوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور جلدہی اس قوم کو مجموعی طور پر ایک لاش میں تبدیل کردیتے ہیں اور ایک لاش سے سوائے تعفن اور بدبو کے ہم اورکیا توقع رکھ سکتے ہیں۔؟کرپشن، اقرباپروی، سود، سفارش، ضمیر فروشی، حسد ، بخل، کینہ اور دھوکہ دہی وغیرہ بدبو اور تعفن ہی تو ہیں۔۔۔میں فیصلہ نہیں کرتا، آپ ہی بتائیں کہ ہمارا معاشرہ ان منفی اقدارمیں کس حد تک  ڈوبا ہوا ہے ۔۔۔؟؟؟  اور جب ہم ایسے سوالات اٹھاتے ہیں تو کہایہ جاتاہے کہ مثبت سوچیئے اور گلاس کے خالی حصہ پر توجہ دینے کے بجائے بھرا ہوا حصہ اپنی نظر میں لائیے۔ ایسے خیر خواہوں سےعرض ہے کہ اس خوبصورت بات پر آپ داد کے مستحق ہیں لیکن ہماری نظر جب بھی بھرے ہوئے آدھے حصے پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کم ہوتا جارہاہےاور وہ  دن دور نہیں جب ہم ندامت  سے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اوراپنی پیاس بجھانے کے لئے ہم ایک بوند پانی کے لئے ترستے رہ جائیں گے۔ آمدم بر سر مطلب ،کیا ہم جانتے بھی ہیں کہ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں؟ مجھے نہیں لگتا کہ ہم ابھی تک ہمارے اصل مسائل کی شناخت کر پائے ہیں اور اگر بالفرض ہمیں ہمارے مسائل سے آگاہی ہیں بھی تو کیا ان مسائل کو حل کرنا ہمار ی ترجیحات میں سر فہرست ہیں یاپھر بس شناخت کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا بیٹھے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہماری ذمہ داریوں کی ابتدا  خود ہماری ذات سے اور پھرہمارے گھروں سے ہوتی ہیں۔۔۔ ؟؟؟کیا یہ درست نہیں کہ زکواۃ و فطرہ ادا کرتے وقت اپنے قریبی افراد زیادہ حقدار ہیں۔؟؟؟ یقیناً ایسا ہی ہے۔پھر ہماری ترجیحات میں خود ہمارے مسائل سر فہرست کیوں نہیں ہے؟
ہمیں ہمارے اصل مسائل کی شناخت کے لئے خود فراموشی کی بیماری سے چھٹکارا پانا ہوگا، شخصیت پرستی کی بتوں کوپاش پاش کرنا ہوگا،تنظیم پرسی کی لعنت سے نکل کرخود شناسی کے آب حیات میں غوطہ زن ہونا ہوگا ( یاد رہےتنظیم کی ضرورت  بحیثیت وسیلہ کا انکار نہیں کیا)، علاقہ پرستی ، لسانیت پرستی اور گروہ بندی  جیسے مضر جرثوموں  سے دور رہنا ہوگا۔ان سب کا’’انکار‘‘ کرنے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایک زندہ قوم کیسی ہوتی ہے؟ اسکی کیا کیا خصوصیات ہیں؟اسے پھلنے پھولنے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟ اس کو تباہ کرنے والے عناصر کون کون سے ہیں؟ اگر اس کو کوئی بیماری لالحق ہوجائے تو کونسا تریاق کام آئے گا؟
جس طرح ایک شخص کی شخصیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اسی قوموں کی بھی شخصیت ہوتی ہے اور اسکے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ان تمام پہلوں میں توازن اسی طرح ضروری ہیں جس طرح انسان کی شخصیت میں توازن اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ آئیے ان پہلوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
علمی پہلو:تعلیم قوموں کی بنیادی ضرورت ہے اور تعلیم کےبغیر مادی اور معنوی ترقی دونوں ناممکن ہے اسلئے ایک زندہ قوم تعلیمی میدان میں کبھی سستی نہیں دیکھاتی۔ میرایہ سوال ہےکہ ہمارے پاس ہمارے تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کیا حکمت عملی ہے؟ اگلے دس، بیس یا تیس سالوں میں ہم تعلیمی لحاظ سے کہاں کھڑے ہونگے؟؟
سماجی پہلو: معاشرہ اور سماج ایک یونیورسٹی کی مانندہے اس سے لوگ سیکھتے اور تربیت پاتے ہیں ، سماجی نظام بہتر ہوگا تو معاشرے میں امن ، بھائی چارگی اور تعاون کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ گوناگوں مسائل کا شکار ہیں  ۔ ان مسائل سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ اور ہم نے اب تک اس سلسلےمیں کیا کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
سیاسی پہلو: سیاست صرف انتخابات کانام نہیں بلکہ بہت وسیع معنیٰ رکھتی ہے۔سیا ست یعنی انسانوں کو درست راستے پر چلانایا پھر اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لئے جدو جہد کرنا۔ خیر اس معاملے میں ہمارے سیاسی قائدین سے کوئی سوال کرنے  کی میں اس لئے جرات نہیں کرتا کیونکہ وہ اس معاملے کسی کا کچھ بھی سننے کے لئے کبھی نہ تیا رتھے اور نہ ہونگے۔
معاشی پہلو: معیشت انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے۔ کشتی اور سمندری جہاز کے بغیر پانی کا سفر اور کسی سواری کے بغیر خشکی کا سفر اور وہ بھی پر خطر راستوں پر خود کشی کہلاتی ہے۔ غریب کے گھر میں چولہا جلے گا تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی اہتمام کرے گا۔معیشت مضبوط نہ ہوں تونہ ادارے چل سکتے ہیں اور نہ ہی تنظیمیں۔ اور اس بات سے انکار تو ممکن ہی نہیں کہ قوموں کی رشد و نمو کے لئے معیشت انتہائی اہم ہے۔ذرا سوچیں کہ ہماری اس شکستہ اور بے حال قوم کی معیشت سدھارنے کے لئے اہمارے پاس کیا منصوبہ (Planning) ہے؟ کوئی حکمت عملی ہے بھی یا پھر من و سلویٰ کے لئے طور پر جا کردعا کرنے کا ارادہ ہے؟
جسمانی پہلو(صحت): ہماری آبادی کا کتنا بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر بیماریوں کو ہی اس قوم پر ترس آتی ہوگی۔جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور آلودگی نے پورے علاقے کو بدبو وں کا مرکزبنا رکھا ہے۔ رہی سہی کسر گرمیوں میں تشریف لانے والےہمارے کوہ پیما، سیاح اور مہانان گرامی پورا کرتے ہیں۔  کیا اس حوالے سے ہماری پالیسیاں  تسلی بخش ہیں؟ سیاحت آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن اس سے مضر اثرات سے بچنےکے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ملاوٹ سے بھرپور خوراک کی خرید و فرخروخت نے جہاں غریبوں کو بیمار بنا دیا ہے وہاں دوائیوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں رہی سہی کسر پوری کر رہی ہیں۔
روحانی پہلو: انسان کا اصل منزل خدا ہے، قربۃ الی اللہ وہ جملہ ہے جو ہم ہر عبادت سے پہلے سوچ اور زبان کا زینت بناتے ہیں۔اگر ہم واقعاً خدا کی جانب سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تمام سرگرمیوں کو اسطرح ترتیب دینا ہوگا کہ ہر جگہ انسان کو خدا یا د رہے۔ مسجد کے مصلے سے لے کر کھیل کے مید ان تک ہرجگہ خدا اور خدا کے احکامات کی پاسداری رہے۔قانون اور پولیس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اللہ تعالیٰ کی یاد انسان کی تنہائی میں بھی خدا کی خوشنودی کی خاطرمنفی اقدار سے بچ کر مثبت اقدار اپنا تاہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے(ہر شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر اچھے افراد سے دست بستہ معذرت کے ساتھ) کہ علمی میدان  میں لفظوں کی ہیرا پھیری کرنے والوں  نے اودھم مچارکھا ہے ، سماج خود ساختہ غیرانسانی اورغیر دینی  رسومات کےاندر بستہ بذنجیر  ہے، سیاست خود غرض اور مفاد پرستوں کا بازیچہ بن چکی ہے،صحت کا شعبہ منافع خوروں کے بازار میں تبدیل ہو گیاہے، روحانیت پر ملاوں اور دین سے نا بلد افرادنے   قبضہ کر رکھاہے اور معاشی لحاظ سے قوم کو بھکاری لفظ استعمال کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے اس لئے کچھ کہنے سے معذرت خواہ ہوں۔مایوسی گنا ہ ہے اور اب بھی وقت نہیں گزرا، دلوں کی موت سے پہلے اسکی بیماریوں کا  علاج کیا  جا سکتا ہےکیونکہ یہی علاج مرض کہن ہے۔خدا رحمت کرے علامہ اقبال کا کہ کیا خوب فرمایا۔
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے  مرض کہن کا چارہ
آیئے  خود غرضی، لسانیت پرستی، علاقہ پرستی ، فرقہ واریت ، اقربا  پروری اور بغض و عناد کے خول سے باہر نکلتے ہیں اور یکجا ہوکر علمی، سیاسی، معاشی، روحانی اور سماجی لحاظ سے ایک قابل تقلید معاشرے کے قیام کے لئے مل کر جدو جہد کرنے کا عہد کریں یقیناً اس طرح ہم انسانیت کی وہ خدمت کر سکیں  گےجو خدا ہم سے چاہتا ہے۔اور یقین جانیے جس دن ایسا ہوگا نہ صرف ہم اپنے تما م مسائل سے چھٹکارا پائیں گے  بلکہ موجودہ دور کی بیمار ، سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کی علاج کے لئے باقی اقوام ہمارے در پر دستک دیں گی۔ (مجھ سے اختلاف کرکے مجھے اصلاح کا موقعہ فراہم کرنے والوں کا پیشگی شکریہ ۔)
طاہر موسوی
truthsustains@gmail.com



Comments

Popular posts from this blog

میں نے دیکھا ہے

ہمارے گاؤں کا پراسرا ر چودھری