Posts

ہمارے گاؤں کا پراسرا ر چودھری

  تحریر۔۔طاہر موسوی گاوں کے مزدوروں اور غریب طبقے کو چودھری کی چودھراہٹ کے زیر اثر رکھنے کے لئے چودھری کے مراعات یافتہ   نوکرجو توجہیات پیش کرتے ہیں تو بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ مثلاً   - -- چودھری صاحب کے پاس اتنا وقت کہاں کہ اتنے بڑے پنڈ کو چھوڑ کرتمہارے خلاف کوئی سازش کرےاور تم ہو کہ ہر جگہ چودھری کی سازشوں کا ذکر کرتے رہتے ہو۔۔۔   دیکھو چودھری صاحب کے بچوں کو، کسی نے کیمبریج سے پی ایچ ڈی کی ہے تو کوئی آکسفورڈ کا فارغ اتحصیل ہےاورتم ترقی اسلئے نہیں کرسکتے کیوں کہ تم چودھری صاحب کو برا بھلا کہتے رہتے ہو۔۔۔   تم نے چودھر ی صاحب کی گاڑیوں کو، فیملی ڈاکٹرز کو اورگھر میں پڑے الیکڑانکس کے بڑے بڑے آلات کو نہیں دیکھا ؟ کس قدر حیران کن ہے!۔۔۔ تمہیں تو بخار کی گولی کےلئے بھی چودھری صاحب کے پاس جانا پڑتا ہے، پھر کس منہ سے چودھری صاحب کوکوستے ہو؟؟   ۔۔۔ہاں! تم نے ابھی چودھری صاحب کی فیکٹری دیکھی ہی کہاں ہے؟ انکے ریسٹورانٹس کو دیکھ کر ہی تم دنگ رہ جاوگے، تمہارے پاس تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے نہ ہی بیٹھنے کےلئے کوئی مناسب گھر ۔ ۔۔پھر چودھری پر انگلی اٹھاتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اپنی او

کاش اس دل کو ملے تیری محبت اے ساقی

کاش اس دل کو ملے تیری محبت اے ساقی تیری الفت ہو فقط ، تیری مودت اے ساقی دولت و حسن وحکومت پہ میں ٹھوکر ماروں ایک لحظے کو عطاہو، تری صحبت اے ساقی تو ہے پردوں میں تو ویران ہے جہاں اے ساقی ترے جلوے کی ہے ، دنیا کو ضرورت اے ساقی تیری     الفت   کے   بنا   ہیچ ہے   دنیا   ساری ہر گرزتا ہوا لمحہ ہے قیامت اے ساقی کر عطا طاہر ِبے ذوق کو بھی عشق و   وفا۔۔۔! تو ہی کر سکتا ہے بس، ایسی کرامت اے ساقی طاہر موسوی یکم مارچ 2017

علاج ِمرض ِکہن ۔۔ گلگت بلتستان والوں کے نام

علاج ِمرض ِکہن ہم گلگت بلتستان کے باسیوں نے ہمیشہ سے خود فراموشی کے نتیجے میں تنزلی اور پستی دیکھی ہے۔ یہ خود فراموشی ایک بیماری کا نام ہے جس میں مریض خود کو بھول جا تاہے۔ پرہیز، دوائی، خوراک اور جسمانی مشق سمیت کسی چیز کا کوئی خیا ل نہیں رکھتا، حتیٰ کہ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور اسے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اور جب یہ بیماری کسی قوم کو لاحق ہوتی ہے تو وہ ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ ‘ بن جاتی ہے، خود اپنے مسائل کو بھول کردوسروں کے لئے کام کرتی ہے، کسی اور کے لئے استعمال ہوتی ہے، اسے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اسکی خودفراموشی نے اسے اندر سے کھوکھلا کردیا ہے اور یہ مرحلہ قوموں کی ناکامی کا تقریباً   ا    ٓخری مرحلہ ہوتاہے ۔بقول حکیم الامت:             وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا۔۔۔۔!             کاروان کے دل سےاحساس زیاں جاتا رہا خدا کسی بھی قوم کی خود فراموشی کی بیماری سے دوچار نہ کرے کیونکہ اس بیماری کے جرثومے تعلیم، معاش، صحت،   سماج ، خاندان اور دین   کے بنیادوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور جلدہی اس قوم کو مجموعی طور پر ایک لاش میں تبدیل کردیتے ہ